ماں کا خواب
میں سوئی جو اک شب تو دیکھا خواب
بڑھا اور جس سے مرا اضطراب
یہ دیکھا کہ میں جا رہی ہوں کہی
اندھیرا ہے اور راہ ملتی نہیں کہیں
لرزتا تھا ڈر سے مرا بال بال
قدم کا تھادہشت سے اٹھنا محال
جو کچھ حوصلہ پا کے آگے بڑھی
تو دیکھا قطار ایک لڑکوں کی تھی
زمردسی پوشاک پہنے ہوئے
دئیےسب کے ہاتھوں میں جلتے ہوئے
وہ چپ چاپ تھے آگے پیچھے رواں
خدا جانے جانا تھا ان کو کہاں
اسی سوچ میں تھی کہ میرا پسر
مجھے اس جماعت میں آیا نظر
وہ پیچھے تھا اور تیزچلتا نہ تھا
دیا اس کے ہاتھوں میں جلتا نہ تھا
کہا میں نے پہچان کر میری جان
مجھے چھوڑ کر آگے تم کہاں؟
جدائی میں رہتی ہوں میں بے قرار
پروتی ہوں ہر روز اشکوں کے ہار
نہ پرواہ ہماری ذرا تم نے کی
گئے چھوڑ،اچھی وفا تم نے کی
جو بچے نے دیکھا مرا پیچ وتاب
دیا اس یوں منہ پھیر کر جواب
رلاتی ہے تجھ کو جدائی مری
نہیں اس میں کچھ بھی بھلائی مری
یہ کہہ کر وہ کچھ دیر یوں چپ رہا
دیا پھر دکھا کر یہ کہنے لگا
سمجھتی ہے تو ہوگیا کیا اسے
ترے آنسوؤں نے بجھایا اسے
0 Comments